Home >>> Biographies >>> Biography of Hazrat Mian Rehmat Sain
Biography of Hazrat Mian Rehmat Sain

Biography of Hazrat Mian Rehmat Sain

 ؒحضرت میاں رحمت سائیں

 
حضرت میاں رحمت سائیں ؒ1787ءکو میاں خیر دین چوہان کے ہاں ضلع گورادس پور میں پیدا ہوئے ۔ابھی آپ کی عمر دو سال کی تھی کہ 1789ءمیں آپ کے والد محترم تلاش روز گار کے سلسلہ میں اپنی بیوی رشید بیگم اور اپنے تینوں بیٹوں نظام الدین عرف نتھا ، نیامت علی اور رحمت علی کو ساتھ لے کر شکر گڑھ ضلع نارووال پہنچے ۔چنددن وہاں قیام کرنے کے بعد قصبہ چونڈہ ضلع سیالکوٹ میںتقریباََ ڈیڑھ سال تک محنت مزدوری کرنے کے بعد گوجرانوالہ چلے گئے۔ جہاں آپ کے والد محترم نے غلام فرید برتن بنانے والے کے ہاں ملازمت اختیا ر کرلی ۔ تین سال تک اس کی ملازمت میں رہے ۔اسی دوران ہی انہوں نے برتن بنانے کا طریقہ سیکھ لیا تو ملازمت کو خیر آباد کہہ کر خو د برتن بنا کر بیچنے شروع کر دیئے ۔ چار سال بعد 1798ءمیں آپ کے والد محترم

میاں خیر دین وفات پا گئے ۔ٹھیک ایک سال بعد 1799 ءمیں آپ کی والدہ محترمہ رشیدہ بیگم بھی خالق حقیقی سے جا ملی ۔ آپ کے دونوں بڑے بھا ئیوں نے پہلے محنت مزدوری پھر آہستہ آہستہ ٹھیکہ پر دیواریں و مکانا ت بنانے کا کام شروع کر دیا ۔1805ءمیں گوجرانوالہ سے ترک سکونت کرکے پنڈی بھٹیاں پہنچے ۔ میاں رحمت ؒ چونکہ دونوں بھائیوں سے چھوٹے اور لاڈلے تھے۔ہاتھ سے کام کرنا گوا رہ نہ کرتے۔ ابھی آپ کی عمر 19سال تھی کہ آپ نے یہاں کے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر چوری ، ڈاکہ زنی شروع کردی ۔آپ کے دونوں بڑے

بھائیوں نے آپ کو بہت سمجھایا۔ مگر آپ اس کام سے بازنہ آئے ۔ تو وہ دونوں آپ کو یہیں چھوڑ کر خود 1810 ءمیں ریاست کالووال کے موضع اچھروال چلے گئے۔ یہاں بھی انہوں نے ٹھیکہ پہ دیواریں اور مکانات بنانے شروع کر دیئے ۔آپ چھ سال تک پنڈی بھٹیا ں علاقہ میں جرائم پیشہ افراد کے ساتھ رہنے کے بعد 1816 ءمیںاپنے بھائیوں کے پاس اچھروال چلے آئے۔ اچھروال میں آپ کو ایک زمیندار کی بیٹی پسند آگئی۔ آپ اس کا رشتہ طلب کرتے رہے وہ رشتہ دینے سے انکار کرتے رہے ۔ اس وقت ریاست کا لووال پر سردار کالے خان کھوکھر کی حکومت تھی۔ جب آپ نے اس لڑکی کے والدین کو زیادہ تنگ کیا تو انہوں نے سردار کا لے خان کھوکھر کے پاس

شکایت کی ۔ جس پر سردار کالے خان نے آپ کو بلایا اور پوچھا کیا تم اس لڑکی کا رشتہ لینا چاہتے ہو ؟۔آپ نے فوراََ کہا ہاں لینا چاہتا ہوں۔ تو سردار نے کہاکہ مہا راجہ رنجیت سنگھ جو ابھی قلعہ چنیوٹ فتح کر کے جھنگ پہنچاہے ۔ اس کے پاس اونٹنیا ں اچھی نسل کی ہیں ان میںسے ایک اونٹنی مجھے لا کر دو تب آپ کو اس لڑکی کا رشتہ دے دیا جائے گا ۔سردار کا خیال تھا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ بہت ظالم ہے۔ جب یہ اس کی اونٹنی چوری کرے گا تو وہ اسے وہیں قتل کروادے گا ۔ تب اس زمیندار کی جان چھوٹ جائے گی۔ لہٰذا آپ اچھروال سے جھنگ پہنچے ۔ آپ کے پہنچنے سے قبل مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنی کمک کے ساتھ قلعہ شور کوٹ کی طرف

روانہ ہوچکا تھا۔ آپ نے بھی پیچھا شروع کر دیا اور موقع کی تلاش میں رہے۔ دوپہر کا وقت تھا احمد پو رسیال کے نزدیک رنجیت سنگھ نے تھکی ہوئی فوج کو کچھ دیر ٹھہر نے کا حکم دیاتو فوج آرام کیلئے رک گئی۔ گھوٹے ، اونٹنیاں ، اونٹ باندھ دیئے۔ اسی جگہ آپ کو موقع مل گیا۔ آپ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی اونٹنی کھول کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جو نہی رنجیت سنگھ کو علم ہواتو اس نے فوج کو چور کا تعاقب کرنے کا حکم دیا ۔ جب آپ دربار حضرت سخی سلطان باہوؒ کے قریب پہنچے تو اتنے میں رنجیت سنگھ کو فوج بھی چڑ ھ گئی ۔ توآپ نے جلدی سے اونٹنی باندھ دی اور خود بھاگ کردربار میں داخل ہوگئے۔ حضرت سخی سلطان باہوؒ کے مزار پر پڑی ہوئی

چادر کو اٹھاکر نیچے چھپ گئے۔ رنجیت سنگھ کی فوج نے کافی تلاش کیا مگر نہ ملے۔ جب باہر نکلے اور دیکھا تو اونٹنی جنس بدل کر اونٹ بن چکی تھی ۔ فوج ناکام واپس لوٹ گئی ۔ حضرت سخی سلطان باہوؒ نے آپ کو سینے سے لگایا۔ سلطان العارفین سینے سے لگتے ہی آپ کے دل سے جرائم کا زنگار اتر گیا اور روحانی علوم سے بہرہ ور ہوگئے۔ تب حضرت سخی سلطان باہوؒ نے آپ کو حضرت محمد ﷺ ، حضرت علی ؓ، حضرت فاطمہ الزہرہ ؓ، حضر ت امام حسین ؓ ، حضرت پیر عبدالقادر جیلانی ؒ سے ملاقات کروائی۔ پھر میدان کربلا کی زیارت

کروائی اورواقعہ کربلا دیکھایا۔اس کے بعد آپ نے فقیرانہ لباس زیب تن کر لیا اور سلطان العارفین کے فقیروں میں شامل ہوگئے۔ دس سال تک مرشد کی خدمت میں رہے۔ ایک روز مرشد کے حکم کے مطابق
دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ بطرف سرگودہا چل پڑ ے ۔ بمقام ٹھٹھہ نون میں درخت شیشم کے سائے میں بیٹھ کر واقعہ کر بلا لکھنا شروع کردیا۔ ادھر انگریز کینا ل سسٹم آفیسر مسٹر ایچ ایس ہیوس نے نہر کھودنے کیلئے جب سرویئر مشین لگا کر دیکھا تو سامنے میاں رحمت سائیں ؒ بیٹھے واقعہ کربلا لکھ رہے تھے۔ اس نے اپنے ایک اہلکار کو بھیجا کہ اس بزرگ سے کہوکہ علیحدہ ہوجائیں ہم نہر کھونے کیلئے سروے کررہے ہیں ۔ اہلکار

نےآکر کہا تو آپ ؒ نہ اٹھے۔ دوبارہ مسٹر ایچ ایس ہیوس خود آیا ۔ اس نے بڑی سختی سے کہاکہ علیحدہ ہوجائیں ہم نہر کیلئے سروے کررہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ابھی میرے سامنے جنگ کربلا ہورہی ہے ۔ جسے دیکھ کر میںلکھ رہا ہوں تومسٹر ایچ ایس ہیوس نے کہا کہ کہاں ہورہی ہے؟۔ آپ ؒ نے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور بڑ ی انگلی سے وکٹری کا نشان بنا کر کہا اس میں سے دیکھو ۔جب مسٹر ایچ ایس ہیوس نے دیکھا تو جنگ ہورہی تھی ۔ اس نے معافی چاہی اور وہاں سے نہر کو خم دے کر گزارلیا ۔ اور وہیں آپ کے نام بیس ایکڑ

رقبہ بھی الاٹ کر دیا ۔ بارہ برس کا عرصہ باہر گزارنے کے بعد دوبارہ حضرت سخی سلطان باہوؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مرشد نے آپ کو پورا واقعہ کربلا دکھایا۔ جنگ کربلا دیکھتے ہی آپ ؒ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے جوساری زندگی جاری رہے۔ آنکھوںکے نیچے آنسوﺅںکی وجہ سے زخم اور جھریاں پڑ گئیں ۔ آپ ؒ کو خواب میں حضرت سخی سلطان باہوؒ نے حکم دیا کہ اپنے وطن کی راہ لو اور وہیں جا کر قیامکرو۔ لہٰذا آپ بمطابق حکم اچھروال پہنچے اور وہیں قیام فرمایا ۔ آپ ؒنے مرشد کے حکم پر نوےّ سال کی برس میں شادی کی تو آپ

کے ہاں چھ نیٹے معصوم علی ، میاں شیر محمد ، میاںسلطان بخش ، میاں علی محمد ، میاں ولی محمد، اور میاں نور حسین اور ایک بیٹی شیر بی بی پیدا ہوئی ۔ بڑا بیٹا معصوم علی عالم طفلی میںہی اﷲ کو پیارا ہو گیا اور آ پؒ نے بیٹی حضرت سخی سلطان باہوؒ کے سجادہ نشین حضرت نور احمد کے عقد میں دے دی ۔ آپ ؒ ساری زندگی حضرت امام حسین ؓ کے غم میں روتے رہے ۔ جب آپ ؒ کابیٹا ولی محمد اﷲ کو پیار ا ہوا تو چند دن کیلئے آ پ کے آنسو رک گئے ۔ لوگوں نے کہا اب کیوں نہیں روتے تو آپ ؒ نے فرمایاکہ فاطمة الزہرا ؓکے بیٹے کے

غم میں رونے والی آنکھیں اگر اپنے بیٹے کو روئیں تو جھوٹی ہو جاتی ہیں ۔ آپ ؒ یکم ذالحجہ 1329ھ بمطابق 1908ءکو 121سال کی عمر میں اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ آپ کے جسد خاکی کو موضع اچھروال میں دفن کیا گیااور آپ کے بڑ ے بیٹے دربار عالیہ کے پہلے سجادہ نشین میاں شیر محمد نے آپؒ کا مزار تعمیر کروایا جواب ” کھوئی میاں رحمت “ کے نام سے مشہو ر ہے۔ میاں شیرمحمد کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے غلام حسین سجادہ نشین ہوئے اور اب تیسرے سجادہ نشین میاںغلام حسین کے صاجزادے میاں غلام عباس ہےں۔ 

ماخذ: تاریخِ چنیوٹ ڈاکٹر ارشاد تھہیم
کمپوزر: عرفان عنائیت