Home >>> Biographies >>> Biography of Ishar Daas Charkh Chinioti
Biography of Ishar Daas Charkh Chinioti

Biography of Ishar Daas Charkh Chinioti

حسنِ نظر

ٓاز علامہ مولا بخش صاحب خضر تمیمی ایم ۔ اے ۔ ایم ‘ او ۔ایل ‘ ایل ۔ ایل ۔بی سینٹر اٹارنی سپریم کورٹ لاہور‘یہ قصہ ہے جب کا” کہ آ تش جواں تھا !“ اپریل ۷۳۹۱ءتک مجھے گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج دھرمسالہ ( کانگڑہ) میں فارسی ‘ اردو اور تاریخ پڑھانے کا شرف حاصل رہا ۔ لیکن دِل میں یہ خلش بدستور چٹکیاں لیتی رہی کہ وکالت پیشہ آدمی کو کیاضرور ہے کہ وہ “شہرسے دور شہرِ یار سے دور”ملازمت کی جھک مارتا پھرے۔ وکالت کے

میدان میں متوقع کامیابیوں کے پیش نظرمیں نے استعفےٰ داغ دیا اور واپس اپنے وطن چنیوٹ آ پہنچا۔مجھے گھر پہنچے کوئی دو چار دن ہی گذرے ہوں گے کہ ایک بھولے بھالے پُرخلوص نوجوان سے میری ملاقات ہوئی جو اپنی لیاقت، دیانت، شرافت اور حسن کارکردگی سے آگے چل کر ایک بلند مقام حاصل کرنے والے تھے۔جناب ایشر داس چرخ چنیوٹی جنہوں نے اسی سال اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ میری درخواست پر ہم دونوں نے وکالت کی گاڑی میں دو پہیوں کی طرح مل کر کام کرنا شروع کردیا اگرچہ کاروباری تعلق کچھ عرصہ بعد ختم

ہوگیا لیکن ہم خیالی اور ہم طبعی کا جو باہمی تعلق ہے وہ اللہ کے فضل سے اب تک قائم ہے اور خدا نے چاہا تو جیتے جی کبھی ختم نہیں ہوگا۔اُن دِنوں ہم دونوں “تازہ واردانِ بساطِ دل”تھے اور ہمارے ذہن اس مرحلے پر تھے کہ باہر سے جو اثر بھی مِلے اُسے قبول کرلیں۔ میرے استادگرامی پروفیسر حافظ محمود شیرانی کے فرزند داﺅد، جنہیں بعد میں دُنیا نے اخترشیرانی کے شہرہ آفاق نام سے جانااور پہچانا، جب لاہور کے ہنگاموں سے اُکتا جاتے تو “مزا منہ کابدلنےکیلئے”سیدھا چنیوٹ کا رخ کرتے جہاں راقم اور جناب ایشر داس چرخ اُن کے چشم براہ رہتے۔ جب وہ ہمیں اچھی طرح نواز لیتے تو چنیوٹ سے ہی بھوانے کے راستے عازمِ جھنگ ہو جاتے، جہاں

ہمارے محبوب دوست سید شبیر حسین تحصیلدار تھے۔ گویا چنیوٹ ہو یا جھنگ سید شبیر حسین اور جناب اختر شیرانی کا قُرب ایک مُسلسل تعلیمی تجربہ تھا۔ جو ہر وقت ہمیں میسرتھا۔تھوڑے دنوں ہی میں جناب چرخ کو ذوق میں دِن دونی اور رات چوگنی ترقی ہوتی گئی اور چنیوٹ کے معروف ہفت روزہ پرچہ “یاد خُدا”جناب چرخ کے رشحات قلم سے مزین رہنے لگا۔۲۴۹۱ءمیں جنگِ عظیم ثانی کے دوران مَیں نے ریڈیو پر لاہورسے تقریر نشر کی موضوع دیہاتی رسوم تھا ۔اور زبان پنجابی ! اتفاق سے سر سکندر حیات خاں مر حوم وزیراعظم پنجاب نے اسے سن پایا۔او رہمارے علم کے بغیر بالا با لا ہی یہ فیصلہ ہو گیا کہ تحریک پنچائت کے سلسلے میں قانونی

مشیر کی حیثیت سے مجھے لاہور میں تعینات کیا جائے ۔ میرے لاہور پہنچے پر جناب چرخ چنیوٹی کے لیے لاہور میں مستقل قیام کا بندوبست بھی ہوگیا ۔ اور تاریخ پنچائت کو ” فروغ دینے “ میں جناب چرخ نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس تحریک کے اپنے ہفت روزہ پرچے ” پنچائت “ کی ادارت چراغ حسن حسرت کے ( اور ان کی غیر حاضری میں میرے ) سپرد ہوتی تھی۔ حلقہ پنچائت میں میں دیگر ادبی شخصیتوں کے علاوہ جناب چرخ چنیوٹیبھی تھے ۔جن کے سادہ افکارخلوص اور سچائی سے پر ہوتے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ جناب چرخ کی شاعری میں پنجاب کا جوان خون دوڑ رہا ہے اس میں دریا ئے چناب کی خنک اور صحت مند ہوا کے جھونکے

دلوں کو ٹھنڈک پہنچارہے ہےں ۔ ان کی شاعری فرضی خیالات پر مبنی نہیں بلکہ ان کے خیالات اور احساسات کی جڑیں‘ دیس کی سر زمین میں پاتال تک چلی گئی ہیں۔ وہ اپنی قلبی وارداتوں کو آپ بیا ن کرتے ہیں اور انہیں ” حدیث دلبراں “ بیان کرنے کے لیے ”حدیث دیگراں“ کا سہارا لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ میری دلی دعا ہے کہ جناب چرخ چنیوٹی جو زندہ دل اور حق گوشاعر اور پنجاب کے ادیبوں میں منفرد ہستی کے مالک ہیں اردو کے دامن کو پنجاب کے خلوص بھرے جذبات ‘ بے ساختگی اور بے تکلفی سے ہمیشہ بھر پور اور مالامال رکھیں اور وہ اردو کے آ سمان ادب پر ہمیشہ ماہ و آ فتاب بن کر چمکیں ۔ آمین 

لے نہ ڈوبے کہیں دریائے غضب اردو کا
سب کو لازم ہے دل و جاں سے ادب اردو کا
۲/دو نہ کہیے ‘ کہ یہی سخن کافی ہے
شاعری چرخ کی سرمایہ ادب اردو کا ۔۔۔۔
۷۴۹۱=۲%۹۴۹۱

لاہور ( مغربی پاکستان)
۵۲۔جون ۷۴۹۱ ( مولا بخش خضر تمیمی)

ماخذ:تاریخِ چنیوٹ از ڈاکٹر ارشاد تھہیم

کمپوزر : عرفان عنائیت