الحاج شیخ محمد یوسف وہرہ سالار
الحاج محمد یوسف وہرہ (سالار) ۲۲۹۱ءکو چنیوٹ میں ایک کاروباری شخصیت شیخ میاں چراغ دین وہرہ کے ہاں پیدا ہوئے اور گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے ۲۱ربیع اول کے مودس روز ۹۱ اگست ۵۹۹۱ءکو اس جہان فانی سے کوش کیا۔ اس سکے بڑی کیا خوش نصیبی تھی کہ مرحوم کو ایسا مقدس دن ملا کہ جس روز پوری کائنات کے وارث رحمت العالمین ﷺ کی ولادت اور وصال ہو ا اور یہی انکی سچے عشق رسالت ﷺ کی دلیل تھی۔ انہوں نے چنیوٹ میں صحافت کا آغاز کیا۔ ان کے شہری مسائل پر متواتر بیان اور مکتوبات آج بھی چنیوٹ کی صحا فت کی تاریخ میں سب سے نمایاں ہیں ۔ چنیوٹ پہاڑی علاقہ پر پانی پینے کی ٹینکی ۔ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ
فارم کاسائبان گورنمنٹ الاصلاح ہائی سکول کی منظوری تعمیر اور ہیضے کی وباءمیں مریضوں کی خدمت قیا م پاکستان کے بعد چنیوٹ میں مہاجرین کی آبادی کے علاوکئی اجتماعی کاموں کے نمونے ان کی سماجی جدمات کے متعرف ہیں۔ 1965 ءکی جنگ میں انہیں پوری تحصیل چنیوٹ کا ڈپٹی چیف وارڈن مقرر کیا جاتا ان کی خدمات کا اعتراف تھا۔ زمانہ جنگ تھا یاامن ہمیشہ اتحاد بین المسلین کے داعی رہے۔ سالار صاحب چنیوٹ پریس کلب و یونین آف جرنلٹس کے تاحیات سر پرست چلے آرہے تھے ۔ ان کی صحافی شاندار خدمات کو ایک منفرد مقام حاصل تھا۔ اس پر ہر سال نواگست کو فیصل آباد کےتمام اخبارات خصوصی اڈیشن شائع کرتے آرہے ہیں جن میں حالات زندگی پہ مبنی رپورٹیں شائع ہوتی ہےں
۔جب چنیوٹ میں پریس کلب کا پہلی بار افتتاح ہو ا تو اس موقع پرفیصل آباد کے تمام اخبارات کے ایڈیٹرز بھی موجود تھے اور اس موقع پر جھنگ کے ڈپٹی کمشنر غلام مرتضٰی پراچہ نے افتتاح اور اپنے خطاب میں خصوصی طور پر کہا کہ سالار محمد یوسف کی سوچ فکر معاشرہ کی بھلائی پر مرکوز ہے ۔ کسی افسر کے دل میں یہ خیال ہوک کہ کسی دباﺅ کے تحت انکو جھکا لیں گے تویہ ان کی غلط فہمی ہے۔ ضلع جھنگ کے سابق ڈپٹی کمشنر میاں فیض کریم ان کے کردار سے بہت متاثرتھے ۔ جوکافی عرصہ تک چنیوٹ میں بھی بطور مجسٹریٹ تعینات رہے اور ایک انتہائی غریب صلاح شہر کے نام پر ایک تنظیم بنائی ۔ جس میں 20 سرکردہ معزز ین شہر تھے۔ اس قافلہ کے ایک سپاہی چوہدری برکت علی جو معروف سائنسدان سخی محمد بھٹہ کے والد ہےں ۔
سالار محمد یوسف نے اپنی اس 20 افراد پر مشتمل ٹیم کے ہمراہ نئے سکول کی منظوری کی کوششیں شروع کردیں ۔ جس میں انہیں نمایاں کامیابی ہوئی ۔اس وقت شیخ برادری کی ایک سرکردہ شخصیت نے انہیں آفردی کہ تما م سکولوں کی تعمیرکا خرچہ ہم ادا کردیتے ہیں سکول کانام میرے نام سے منسوب کردیا جائے ۔مگر انسان دوست اور انصاف کے علمبر دارسالار محمد یوسف نے جواب دیا کہ اس میں میرے بیس ساتھیوں کی محنت شامل ہے۔ میںاسے کیسے رد کر سکتا ہوں ۔اس پر انہوں نے اصلاح ہائی سکول کانام تجویز کردیا جو آج ایک مثالی ادارہکی صورت میں موجود ہے ۔ انہوں نے خاکسار ہونے کے ناطے ہمیشہ فرقہ ورایت سے نفرت کی اور اخوت محبت و بھائی چارہ قائم کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انجمن مفاد عامہ قائم کی تواس میں شہر بھر کے تمام مکاتب فکر کے علماءنے انہیں صدر بنایا اور ان کے جنرل سیکرٹری چوہدری محمد
عمر ایم اے تھے۔جوانتہائی ور کرتھے انجمن مفاد عامہ کے پلیٹ فارم سے بھی انہوں نے اس شہر کے مظلوموں کی بھر پور خدمت کی چنیوٹ میں یہ پہلے مسلمان نیوز ایجنٹ تھے ۔ جن کے پاس تمام اخبارات کی ایجنسیاں تھیں ۔ اکثر صحا فیوں کو قلم کی پاسداری کرنے کی تلقین کرتے رہتے اور برملا اس بات کااظہار کرتے کہ قلم کی عصمت ‘ماں کی عصمت سے بھی زیادہ عزیز ہے ۔ قلم فروشی کرنے والا ای ہے جیسے اس نے اپنی ماں کی عزت بیچ کر دولت کمائی ہو یہ ہی وجہ تھی کہ وقت کے بڑے بڑے فرعونوں کی ہر سازش کو ناکام بناتے رہے۔ تاہم یہ و احد شخصیت ہے کہ جسے ہر پہلو سے جائزہ لیا تو دل یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ چنیوٹ کی تاریخ میں اس مرد قلندر کا تزکرہ نہ کرنا تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے اوراسے مسخ کرنے والے بھی دیانتدار نہیں بلکہ اپنے منصب سے بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔یقینا کسی شاعر نے جو عکاسی کی ہے وہ سالار صاحب پر مکمل ہوتی ہے ۔
اس نے ایسے شہر کو چھوڑا ہر رستہ ویران ہوا
میرا ہی کیا سارے شہر کا ایک جیسا نقصان ہوا۔
ماخذ: تاریخ چنیوٹ از ڈاکٹر ارشاد تھہیم
کمپوزر: عرفان عنائیت